ہاشم ندیم کے ناول عبداللہ 3 کی پہلی قسط آپ کیلئے پیش خدمت ہے۔ رومی نے کہا تھا کہ ’’مَیں نے بس اتنا جانا ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہوگا، البتہ اُن میں چند ہی زندہ وہ ہوں گے، جو جینے کا لُطف بھی محسوس کر پائیں گے۔‘‘ اب جانے میرا شمار کس قطار میں ہوتا تھا۔ ہاں، صحرا میں کھڑی اِس درگاہ کے دروازے پر لمبی لمبی قطاریں ہی تو بنی ہوئی تھیں، سائل پریشان حال لُٹے پِٹے اپنی اپنی مَنتّوں کی گٹھریاں اپنے کاندھوں پر اٹھائے جانے کب سے تپتی دھوپ میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ درگاہ کے صحن میں اپنے آپ میں گُم مجذوب نے جھٹکے سے سراٹھایا اور ہم سب پر ایک نگاہِ بے نیاز ڈالی۔ تیز ہوا چلی، تو درگاہ کے صحن میں گِرے خشک پتّے میری زرد سوچوں کی طرح بکھرنے لگے، لمبی لَٹوں والے درویش نے سراٹھایا، ’’جانتی ہو دنیا میں ہوس کی بہت سی اقسام ہیں، مگر اُن میں سب سے زیادہ مہلک قسم وہ ہے، جسے دونوں فریق آخر تک محبت سمجھتے رہتے ہیں۔‘‘ درویش کے قدموں میں بیٹھی لڑکی ہاتھ جوڑ کر روپڑی، ’’میں صدیوں کی مسافت طے کر کے یہاں تک پہنچی ہوں صاحب! مجھے یوں نہ دھتکارو۔‘‘ لڑکی کے جُڑے ہاتھوں سے کنگن چَھن کی آواز کے
Books Guru
Online PDF Books & Novels