نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

Abdullah 3 Urdu Novel by Hashim Nadeem (Complete PDF Download)

حالیہ پوسٹس

Abdullah 3 Novel by Hashim Nadeem Episode 1

ہاشم ندیم کے ناول عبداللہ 3 کی پہلی قسط آپ کیلئے پیش خدمت ہے۔ رومی نے کہا تھا کہ ’’مَیں نے بس اتنا جانا ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہوگا، البتہ اُن میں چند ہی زندہ وہ ہوں گے، جو جینے کا لُطف بھی محسوس کر پائیں گے۔‘‘ اب جانے میرا شمار کس قطار میں ہوتا تھا۔ ہاں، صحرا میں کھڑی اِس درگاہ کے دروازے پر لمبی لمبی قطاریں ہی تو بنی ہوئی تھیں، سائل پریشان حال لُٹے پِٹے اپنی اپنی مَنتّوں کی گٹھریاں اپنے کاندھوں پر اٹھائے جانے کب سے تپتی دھوپ میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ درگاہ کے صحن میں اپنے آپ میں گُم مجذوب نے جھٹکے سے سراٹھایا اور ہم سب پر ایک نگاہِ بے نیاز ڈالی۔ تیز ہوا چلی، تو درگاہ کے صحن میں گِرے خشک پتّے میری زرد سوچوں کی طرح بکھرنے لگے، لمبی لَٹوں والے درویش نے سراٹھایا، ’’جانتی ہو دنیا میں ہوس کی بہت سی اقسام ہیں، مگر اُن میں سب سے زیادہ مہلک قسم وہ ہے، جسے دونوں فریق آخر تک محبت سمجھتے رہتے ہیں۔‘‘ درویش کے قدموں میں بیٹھی لڑکی ہاتھ جوڑ کر روپڑی، ’’میں صدیوں کی مسافت طے کر کے یہاں تک پہنچی ہوں صاحب! مجھے یوں نہ دھتکارو۔‘‘ لڑکی کے جُڑے ہاتھوں سے کنگن چَھن کی آواز کے

Abdullah 3 Novel by Hashim Nadeem Episode 2

  ہاشم ندیم کے ناول عبداللہ 3 کی دوسری قسط آپ کیلئے پیش خدمت ہے۔ وہ تین لڑکے تھے، میری نظر فوراً اُن کی بائیکس کی طرف گئی، ہارلے ڈیوڈسن، ہایابُوسا اور شوگن… تینوں ہی قیمتی بائیکس تھیں۔ لڑکے حُلیے سے بھی عام چور اُچکّوں سے مختلف لگ رہے تھے۔ قیمتی جینزاور ہاتھوں میں پکڑے سگریٹ کی مہک بازاری تمباکو سے جُدا تھی، پھر یہ چوری، ڈاکا کیسا؟ میں اِن ہی خیالات میں اُلجھا ہوا تھا کہ اُن کا سرغنہ چلّا کہ بولا، ’’سُنا نہیں، نیچے اُترو… چلو، جلدی کرو…‘‘ زہرا کا رنگ خوف کے مارے سفید پڑنے لگا، کیوں کہ اس نے دوسری جانب کھڑے لڑکے کے ہاتھ میں 32بور کا خوف ناک پستول دیکھ لیا تھا۔ میں نے سُکون بحال رکھتے ہوئے ان سے کہا، ’’ تمہیں جو کچھ چاہیے، مَیں ویسے ہی تمہارے حوالے کرنے کو تیار ہوں، تم ہمیں جانے دو۔‘‘ وہ غُرّا کربولا، ’’لگتا ہے تمہیں سیدھی زبان سمجھ نہیں آتی، چُپ چاپ نیچے اُترجائو، ہمیں جو کچھ چاہیے ہوگا، ہم خود لیں گے…‘‘ زہرا کپکپاتی آواز میں بولی، ’’ساحر! اِن سے بحث مت کرو… جیسا کہتے ہیں، پلیز ان کی بات مان لو…‘‘، ’’ٹھیک ہے، لیکن تم اندر ہی بیٹھی رہنا… اپنی طرف کا دروازہ لاک کرلو… اور کچھ بھی ہوجائے…

Abdullah 3 Novel by Hashim Nadeem Episode 3

  ہاشم ندیم کے ناول عبداللہ 3 کی تیسری قسط آپ کیلئے پیش خدمت ہے۔ کچھ دیر ماحول پر گمبھیر سی خاموشی طاری رہی۔ کبھی کبھی سارے لفظ ہمارے اندر موجود ہوتے ہوئے بھی ترتیب پانے میں بہت وقت لے لیتے ہیں۔ ویسے بھی کہتے ہیں غم، دُکھ یا نقصان کی خبربہت ناپ تول کر سُنانی چاہیے۔ سو، وہ بھی بہت دیر، چُپ نظریں جھکائے کھڑےلفظ ناپتے تولتے رہے اور مَیں سُکون سے کھڑا زہرا کے ابّا کے بولنے کا انتظار کرتا رہا۔ اُنہیں بات کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ تیسری بار پوچھ بیٹھے، ’’اور میاں! کیسے ہو…؟‘‘ میرا دل چاہا، کہوں ’’کئی سال سے قید ہوں، بے بس، بے چین ہوں، بہت اذیت میں ہوں۔‘‘ لیکن زبان سے وہی پُرانا جھوٹ نکلا، ’’ٹھیک ہوں۔ آپ فرمائیں کیسےآنا ہوا، وہ تو ٹھیک ہےناں؟‘‘ جانے کیوں، مگر میں اُن کے سامنے زہرا کا نام نہیں لے پاتا تھا۔ شاید ہر ادب کے کچھ الگ تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ کچھ دیر چُپ رہے۔ ’’تم جانتے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن ایک جوان بیٹی کےباپ کو ہزار اطراف دیکھنا ہوتا ہے۔ مَیں کہنا نہیں چاہتا، مگر اُس کانام بہت رسوا ہو رہا ہے، تمہارے نام کے ساتھ۔‘‘ میں نے تڑپ کر اُن کی طرف دیکھا۔ بس یہی کسر باقی رہ گئی تھی۔ وہ می

Abdullah 3 Novel by Hashim Nadeem Episode 4

  ہاشم ندیم کے ناول عبداللہ 3 کی چوتھی قسط آپ کیلئے پیش خدمت ہے۔ ؎ ہم اتفاق رائے سے زندہ بچھڑ گئے.....اِک دوسرے کو مَرکے دکھانا نہیں پڑا۔ یوگی نےشعر پڑھ کےخود ہی زور سے قہقہہ لگایااور پھر خود ہی اپنا ماتھا پیٹتے ہوئے بولا ’’ہائے ری محبت … ہائے ری محبت…‘‘ مَیں نے بے زاری سے اُس کی طرف دیکھا۔ ’’یہ جیل توڑنے اور فرار کی بات کےبیچ محبت کہاں سے لے آئے، پہلے وہ بات ختم کرو، جو شروع کی تھی۔‘‘ مگریوگی مجھے دیکھ کے مُسکراتا رہا۔ ’’محبت کو میں بھلا کب بیچ لایا ہوں۔ محبت تو تمہارے ساتھ چلتی اس بیرک تک آئی ہے۔ زخمی محبت، گھائل محبت…‘‘ مَیں چُپ ہوگیا، یوگی ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ ’’تم کچھ کہہ رہے تھے…؟‘‘ مَیں نےموضوع بدلنے کی کوشش کی۔ ’’ہاں، لیکن تم نے یہ نہیں پوچھا کہ اپنی زندگی کا اتنا بڑا راز اس بَھری جیل میں مَیں نےصرف تم ہی کو کیوں بتایا؟‘‘مَیں نے یوگی کی آنکھوں میں جھانکا۔ ’’کیوں کہ اس ساری جیل میں صرف ایک میں ہی تمہیں تمہارے کام کا بندہ دکھائی دیتا ہوں۔‘‘ یوگی زور سے ہنسا ’’ٹھیک کہا اور مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم وہ نہیں،جودکھائی دیتےہو۔ تمہاری یہ گہری خاموشی تمہارے اندر کی گہرائی کا پتا

Abdullah 3 Novel by Hashim Nadeem Episode 5

  ہاشم ندیم کے ناول عبداللہ 3 کی پانچویں   قسط آپ کیلئے پیش خدمت ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار لگا ہوا تھا۔ سب جن و انس، چرند پرند، ہوائیں تک مؤدب، ساکت کھڑے نئے حکم نامے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہُد ہُد جو ملکہ صبا کے تخت کی خبر لایا تھا، اُس نے کن انکھیوں سے مور راجہ کی طرف دیکھا۔ سامنے خُوب صُورت نقّاشی والے اونچے عظیم ستونوں میں سے ایک پر دیمک کے کیڑے دَم سادھے بیٹھے تھے کہ ابھی شہتیر کھانے کا حکم نہیں ملا تھا۔ اچانک دربانوں میں کچھ ہلچل سی ہوئی اور باہر کسی بحث کی آوازیں اُبھریں۔ حضرت سلیمانؑ کی رُعب دا آواز گونجی ’’فریادی کو آنے دیا جائے۔‘‘ دربار میں داخل ہونے والا شخص سخت خوف زدہ تھا اور وحشت بھرے انداز میں بار بار بیرونی دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ حضرت کے استفسار پر وہ گِڑگِڑا کر بولا ’’حضور! میں نے شاید ابھی ابھی آپ کے دروازے پر عزرائیل علیہ السلام کو دیکھا ہے اور مجھے شک ہے کہ وہ میری ہی رُوح قبض کرنے یہاں آئے ہیں، لیکن میں ابھی مرنا نہیں چاہتا۔ آپ کے تابع تو سارا جہاں ہے، یہ جن و انس، یہ سرسراتی ہوائیں، آپ کسی کو حکم کیجیےکہ مجھے ابھی دنیا کے دوسرے سرے تک پہنچ

Abdullah 3 Novel by Hashim Nadeem Episode 6

  ہاشم ندیم کے ناول عبداللہ 3 کی چھٹی قسط آپ کیلئے پیش خدمت ہے۔ اُس کا نام والدین نے بہت پیار سے ظہیر رکھا تھا، تین بیٹیوں کے بعد اکلوتا بیٹا، بہنوں کا بھائی بن کر دنیا میں آیا تو گھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ ماں باپ، بہنیں اُسے چوم چوم نہ تھکتے۔ وہ تھا ہی ایسا پیارا، معصوم، بڑی بڑی آنکھوں والا، جس کے کشادہ ماتھے ہی سے ذہانت جھلکتی دکھائی دیتی۔ اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں ہر مضمون میں اوّل، کھیل ہو یا تقریری مقابلہ، ڈراما ہو یا مشاعرہ، ظہیر ہر محفل کی جان ہوتا۔ انجینئرنگ مکمل کی اور پھر یونی ورسٹی کے وظیفے پر فزکس میں ماسٹرز بھی کرلیا۔ طبیعات اور مابعد الطبیعات اس کے پسندیدہ مضامین تھے اور اسے گولڈ میڈل بھی اسی مضمون میں ملا۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک دن گھر کا کرایہ چُکانے کے لیے اُسے وہی سونے کا تمغہ جوہری بازار لے جا کر بیچنا پڑے گا۔ یونی ورسٹی ختم ہونے کے بعد باہر کی دنیا اور مُلک کافرسودہ نظام نہایت بے رحم ثابت ہوا، نوکری کے لیےدربدر دھکّے کھاتے اس کے جوتے گِھسنے لگے، لیکن ہر اسامی پر کسی وزیر یا بڑے ا فسر کا سفارشی چُن لیاجاتا اور جو جگہ بچتی، وہاں منہ پھاڑ کر رشوت